History

Geo Amjad

زندگی کا سفر

ضلع سرگودھا کا ایک خوبصورت سا علاقہ پھلروان ہے یہی چھوٹا ساشہر میری جائے پیدائش ، میرا وطن اور میرا مولد و مسکن ہے۔مجھے اس علاقے کی ایک ایک گلی کوچے سے محبت ہے۔اس کے کھیت و کھلیان میری روح میں اترے ہوئے ہیں۔اس کے کوچہ و بازار میرے شعور ،لاشعور اور تحت الشعو ر کی گہرائیوں میں زندہ ہیں۔میں چاہے دنیاکے جس کونے میں بھی ہوں مجھے میرا وطن ،میرا شہر ،میرا گاؤں کبھی نہیں بھولتا۔مجھے میرا گاؤں دنیا کے ہر ملک اور خطے سے زیادہ خوبصورت لگتا ہے……اس لئے کہ میرا خوبصورت بچپن ،دلکش لڑکپن اور سحرانگیزجوانی اسی شہر میں گزری ہے،چونکہ بچپن بہت خوبصورت ہوتا ہے اس لئے بچپن سے وابستہ ہر چیز خوبصورت اور انمول ہوتی ہے، اسی لئے مجھے میرا شہر اور گاؤں ہمیشہ دل کش و دل آویز نظر آتا ہے۔میں نے زندگی میں نیویارک،واشنگٹن،لندن ، پیرس،سوئٹزرلینڈسمیت دنیا بھر کے سینکڑوں خوبصورت ترین مقامات دیکھے ہیں مگر میراشہر ان سب سے بڑھ کر خوبصورت اور پیارا ہے۔

بچپن اور لڑکپن کے ایام اتنے بھرپور،زندگی اتنی پرکشش اور سہل تھی کی پتہ ہی نہیں چلا کہ کب پرائمری سکول سے ہائی سکو ل اور ہائی سکول سے کالج پہنچ گئے ……گورنمنٹ کامرس کالج سرگودھا سے سی کام، ڈی کام اور پھر کامرس میں بی اے اوربی کام کرلیا۔میں شروع سے ہی الحمدللہ بہت ایکٹو،متحرک اور محنتی تھا۔میرے والد صاحب کپڑے کا کاروبار کرتے تھے…… لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ صحافی بھی تھے…… مختلف اخبارات کی نمائندگی اور نامہ نگاری ان کے پاس تھی وہ متعدد اخباروں میں خبریں ،مراسلے،رپورٹیں اور مضامین بھیجتے تھے۔والد صاحب کی صحبت کی وجہ سے مجھے بھی لکھنے لکھانے اور صحافت کا شوق تھا۔شروع میں تو تحریری کام اور دیگراموران کے ساتھ مل کرسرانجام دیتا تھا لیکن بعد میں میں نے باقاعدہ طور پر اخبارات میں لکھنا شروع کر دیا تھااور میں دیگر صحافتی فرائض بھی انجام دے رہا تھا۔

میرے والد صاحب کی تربیت ایسی تھی کہ میں سکول سے سیدھااپنی دکان پر آتا تھا اور عام لڑکوں کی طرح گلیوں میں گلی ڈنڈااور بنٹے کھیلنے کی بجائے والد صاحب کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتا تھا۔والد صاحب پریس فوٹو گرافر بھی تھے وہ اپنے کیمرے سے تصویریں بنانے کے بعد تصویروں کی ڈویلپنگ اور پرنٹنگ کا کام بھی خود ہی کرتے تھے۔میرے والد صاحب کی تربیت ایسی تھی کہ میں سکول سے سیدھااپنی دکان پر آتا تھا اور عام لڑکوں کی طرح گلیوں میں گلی ڈنڈااور بنٹے کھیلنے کی بجائے والد صاحب کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتا تھا۔والد صاحب پریس فوٹو گرافر بھی تھے وہ اپنے کیمرے سے تصویریں بنانے کے بعد تصویروں کی ڈویلپنگ اور پرنٹنگ کا کام بھی خود ہی کرتے تھے۔ میں ان کے ساتھ رہ کر یہ کام بھی سیکھ چکا تھا۔اس وقت کے تقریبا ً تمام اخبارات کی نہ صرف ایجنسی ہمارے پاس تھی،بلکہ رپورٹنگ، نامہ نگاری،نمائندگی، فوٹو گرافی ، ترسیل اورتقسیم کا مکمل کام بھی ہمارے پاس ہی تھااور میں تمام کاموں میں کافی حد تک مہارت حاصل کر چکا تھا۔والد صاحب نے تمام اخبارات کا حساب کتا ب ، لین دین اور نگرانی میرے ذمے لگا ئی ہوئی تھی۔اخبارات کی تقسیم کے لئے ہاکر بھی موجود تھے اورملازم بھی رکھے ہوئے تھے لیکن جس دن کوئی ملازم چھٹی پرہوتاتو یہ کام بھی مجھے خود کرنا پڑتا تھا،چونکہ آس پاس کے قصبوں کی ایجنسیاں ہمارے پاس تھیں اس لئے میں خود دس بارہ کلومیٹر سائیکل چلا کر اخبارات تقسیم کرتا تھا۔

میری زندگی بچپن سے ہی بہت زیادہ مصروف تھی ،شروع سے کام کرنے اوربھاگ دوڑ کی عادت تھی بلکہ کام کرناہی زندگی کا مقصد بن گیا تھا۔میری ڈیلی روٹین کچھ اس طرح ہوتی تھی کہ میں نمازِ فجر سے پہلے اٹھتا تھانماز ادا کرنے کے بعد والد صاحب کے ساتھ ریلوے اسٹیشن چلا جاتا جہاں لاہور،کراچی اور راولپنڈی سے آنے والی ٹرینوں سے اخبارات کے بنڈل وصول کرتا،پھر کارندوں اور ہاکروں کو اخبار تقسیم کرنے کے بعد گھر آکر ناشتہ کرتا اور پھرسکول روانہ ہوجاتا ۔سکول سے سیدھا دکان پر ہی آنا ہوتا تھا،دکان کے کاموں کے ساتھ ساتھ ہوم ورک بھی دکان پر بیٹھ کر ہی کرتا ،دوپہر کا کھانا ہمیں دکان پر ہی ملتا اور شام کو دکان بند کرکے والدصاحب کے ساتھ ہی گھرجانا ہوتا تھا ، اگر کسی دن سکول کا ہوم ورک زیادہ ہوتا توباقی کام گھر جاکر رات کو کرنا پڑتا، اس کے بعد رات نو بجے تک ہم لازمی سوجاتے تھے کیونکہ اگلے دن پھر صبح فجر سے پہلے ا ٹھنا ہوتا تھا ۔یہ تھی میری روٹین جو سالہا سال تک جاری رہی کوئی چھٹی نہیں تھی نہ اتوار کی نہ جمعے کی۔ پاکستان میں ویسے تو بہت چھٹیاں ہوتی ہیں لیکن اخبارات میں سب سے کم چھٹیاں ہوتی ہیں عید کی اگر تین یا چار چھٹیاں ہوں تو اخبار کی ایک ہی چھٹی ہوتی ہے۔یوں بچپن سے ہی میری زندگی سخت محنت اور جدوجہد سے عبارت تھی۔گلی کی نکڑ پر کھڑے ہوکر لڑکوں سے گپ شپ لگانایا محلے میں کسی دکان کے تھڑے پر بیٹھ کر فضول باتوں میں وقت ضائع کرنا یا رات کو یاروں دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرنا کبھی میرا شوق یا عادت نہیں رہی۔میں نے خود کو ہمیشہ مثبت اور تعمیری کاموں میں مصروف رکھا۔

میرے والد صاحب اپنے علاقے کی معروف شخصیت تھے اور ان کا علاقے میں اچھا اثر و رسوخ تھا،صحافت ان کی پہچان تھی،وہ کئی فلاحی اور سماجی تنظیموں کے عہدوں پر بھی فائز تھے،ان کی بنائی ہوئی کئی تنظیمیں آج بھی اپنے علاقے میں کامیابی سے فلاح وبہبود کا کام کررہی ہیں۔ علاقے میں وہ واحد صحافی تھے جو پاکستان کے تقریباً تمام اخبارات کی نمائندگی کرتے تھے۔علاقے میں ہونے والی کسی بھی اہم تقریب میں انہیں مدعو کیا جاتا تھا اوراکثر و بیشتر تقریبات میں منصب ِ صدارت پر والد صاحب کو ہی فائز کیا جاتا تھا۔میں ہر جگہ ہر تقریب میں ان کے ساتھ ساتھ ہوتا تھا اس طرح لوگوں کے ساتھ میری بھی جان پہچان ،میل جول اور تعلقات بڑھتے چلے جارہے تھے۔والد صاحب انتہائی محنتی اور جفاکش انسان تھے، میں نے جو اپنی روٹین بتائی ہے ان کی بھی تقریباً وہی روٹین تھی اور اس کے علاوہ بھی بہت سی ذمہ داریاں ان کے سر تھیں۔وہ انتہائی شفیق او ر مہربان باپ تھے، انہوں نے ہمیں کبھی کسی چیز کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا وہ اچھا کھلاتے اور اچھا پلاتے تھے مگر شیر کی نظر رکھتے تھے۔ہمیں پاکٹ منی ملتی تھی ایک آنہ مگر ریڑھی سے کوئی چیز خرید کر کھانے کی اجازت نہیں تھی۔میں والد صاحب کے ساتھ ہر کام میں ان کا ہاتھ بٹاتا تھا،جب میں ساتویں جماعت میں تھا تواس وقت تک میں اکثر کام خود ہی کر لیتا تھا،اس لئے اب کئی دفعہ صبح کے کاموں کے لئے وہ مجھے اکیلے ہی بھیج دیتے تھے۔میں سکول میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ ادبی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیتا تھا،تقریری مقابلوں میں حصہ لینا اور شعر و شاعری میر امشغلہ تھا۔اس کے علاوہ ہاکی ،سکاؤٹس اور دیگر سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیتا تھا۔